میرے والد صاحب نے اور ملک صاحب نے حکیم سادہ سے نسخہ لینے کے سو جتن کیے‘ انہیں رقم کی آفر بھی کی۔ حکیم صاحب کی عمر چونکہ اسی سے اوپر تھی‘ خطرہ تھا کہ یہ نسخہ لے کر قبر میں نہ چلے جائیں لیکن انہوں نے نہ ماننا تھا نہ مانے۔۔۔
یہ واقعہ ہمارے ایک رشتہ دار نے سنایا ہے اور واقعہ کیا ہے ایک المیہ ہے‘ ایک بے وقوف آدمی ایک انمول نسخہ قبر میں لے گیا‘ افسوس صد افسوس! انہوں نے بتایا کہ میں چھوٹا سا تھا‘ ہمارے گھر کے ساتھ ایک ملک صاحب رہتے تھے ایک دن ہم گھر سے باہر گلی میں کھڑے تھے کہ دور سے ایک ٹھگنا سا غلیظ کپڑوں میں ملبوس آدمی آتا ہوا دکھائی دیا‘ جیسے ہی وہ نزدیک آیا ملک صاحب پرتپاک انداز سے انہیں ملے‘ سب حیرانی سے دیکھنے لگے‘ کہاں۔۔۔!!! ملک صاحب جیسا خوش پوشاک معزز بندہ کہاں ۔۔۔ وہ فقیروں سے بدتر آدمی اتنی دیر میں ملک صاحب آئیے آئیے حکیم صاحب کہتے ہوئے انہیں اپنی بیٹھک میں لے گئے‘ ہم حیرت زدہ رہ گئے یہ کیا میلا کچیلا حکیم تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ نام نہاد حکیم چلے گئے ہم یہ راز لینے کیلئے ملک صاحب کے پاس پہنچ گئے۔ ملک صاحب نے کہا اس شخص کا نام محمد صادق ہے لیکن اب گردش وقت کے ہاتھوں بگڑتا بگڑتا سادہ بن چکا ہے‘ اس کو حکیم سادہ کہتے ہیں لیکن یہ کیسا حکیم ہے؟ بھئی بات یہ ہے کہ اس کے پاس بواسیر کے علاج کا ایک انمول نسخہ ہے ۔ میری بیگم کو بواسیر کی تکلیف ہے یہ اُس کا علاج کررہا ہے‘ ہمیں یقین نہ آتا تھا کہ ایسا مخبوط الحواس بندہ ہو اور اس کے پاس ایسا کوئی نسخہ ہو لیکن ملک صاحب نے یقین دلایا واقعی نہ جانے کہاں سے اس کے ہاتھ یہ نسخہ آیا ہے اس کے علاج سے میری بیگم کو کافی افاقہ ہے۔
یہ بندہ انتہائی کنجوس‘ لالچی ہے‘ یہ علاج کیلئے سو روپے لیتا ہے‘ یہ آج سے تقریباً اسی سال پہلے کی بات ہے‘ جب کلرک کی تنخواہ صرف 40 روپے تھی‘ اس دور میں انتہائی مہنگا علاج تھا۔
ایک مہینہ بیگم صاحبہ کا علاج ہوتا رہا‘ کھانے کی دوائیاں وغیرہ تھیں‘ آخری دن حکیم سادہ نے مالش کرنے کیلئے ایک تیل جیسی دوائی دی اور کہا کہ علیحدہ کمرہ میں بیگم صاحبہ کے پورے جسم پر مالش کی جائے اور پھر ایک بڑے سے ٹب میں پانی گرم کریں ایک پڑیا سفوف کی دی اور کہا یہ گرم پانی میںڈال کر بیگم صاحبہ اس پانی میں بیٹھ جائیں۔
ملک صاحب کی بیگم چونکہ اکیلی تھیں تو ملک صاحب نے میری والدہ کو بلوا بھیجا کہ باجی آپ میری بیگم کومالش کریں۔ والدہ صاحبہ پہنچی انہوں نے ملک صاحب کی بیگم کی مالش کی اور پھر مٹکے کے دونوں طرف چولہے کی طرح اینٹیں رکھ کر بیگم صاحبہ کو بٹھا دیا کچھ تیل کا اثر کچھ بھاپ کا اثر بیگم صاحبہ پسینے پسینے ہورہی تھیں۔
تھوڑی دیر بھاپ لینے کے بعد ایسے محسوس ہوا جیسے بیگم صاحبہ کےجسم سے کچھ نکل نکل کر مٹکے میں گررہا ہے۔
حکیم سادہ صاحب بیٹھک میں تشریف فرما تھے‘ مریض کی حالت کا پوچھتے رہے جب ایک گھنٹہ گزر گیا‘ پانی ٹھنڈا ہوگیا بیگم کا پسینہ بھی خشک ہوگیا تو حکیم صاحب نے کہا بس اب علاج مکمل ہوگیا۔
بیگم صاحبہ کپڑے پہن لیں اور ملک صاحب آپ مٹکے کو اُٹھا کر باہر لے آئیں۔ جیسے ہی مٹکا باہر لایا گیا حکیم صاحب نے مٹکے کے پانی کو گرانے کا حکم دیا جوں ہی پانی گرایا گیا تو پانی کے اندر ٹڈیوں جیسے لال رنگ کے کیڑے مرے ہوئے نکلے۔ انہوں نے کہا یہی بواسیر کے کیڑے ہوتے ہیں جو اندر سے جسم کو کاٹتے ہیں اور مریض کو تکلیف ہوتی ہے اب انشاء اللہ بیگم صاحبہ مکمل صحت یاب ہیں اب انہیں کبھی یہ تکلیف نہیں ہوگی۔
میرے والد صاحب نے اور ملک صاحب نے حکیم سادہ سے نسخہ لینے کے سو جتن کیے‘ انہیں رقم کی آفر بھی کی۔ حکیم صاحب کی عمر چونکہ اسی سے اوپر تھی‘ خطرہ تھا کہ یہ نسخہ لے کر قبر میں نہ چلے جائیں لیکن انہوں نے نہ ماننا تھا نہ مانے۔۔۔ پھر افسوس کی بات یہ ہے کہ وہ علاج کی رقم کو خرچ بھی نہیں کرتے تھے‘ فقیروں کے حال میں رہتے‘ اس وقت بینک وغیرہ نہیں ہوتے تھے‘ سنا یہی تھا پیسہ خرچ نہیں کرتے جن کے پاس رکھواتے‘ وہی ہضم کرجاتا کیونکہ اپنا گھر وغیرہ تو اُن کا تھا ہی نہیں کافی عرصہ پہلے بیوی مرگئی تھی‘ اولاد تھی نہیں‘ ایک ڈاکٹر صاحب کو یہ واقعہ سنایا تو وہ کہنے لگے واقعی بڑے سے بڑے آپریشن سے بھی یہ بواسیر کے کیڑے مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے‘ مریض کو آپریشن پر آپریشن کروانے پڑتے ہیں۔
کاش!!! حکیم سادہ یہ انمول نسخہ کسی کو بتا جاتے تو کتنوں کا بھلا ہوتا‘ منہ مانگی قیمت لے لیتے لیکن واقعی بعض بے فیض آدمی ہوتے ہیں مجھے تو آج تک یہ سوچ کر حیرت ہوتی ہے کہ ایسا لاجواب طریقہ علاج ان کے ہاتھ کہاں سے لگا ہوگا کیونکہ ان کی احمقانہ شخصیت کو دیکھ کر انسان شش و پنج میں پڑجاتا تھا کہ خدایا تیری قدرت۔۔۔۔
اب تو حکیم سادہ کو جاننے والے اکثر لوگ اس دور فانی سے کوچ کرگئے لیکن جو اب بھی زندہ ہیں اس انمول نسخے کے گم ہونے پر آج تک افسردہ ہیں۔
حکیم سادہ نے فقیروں جیسی زندگی گزاری اس زمانے کے حساب سے بے پناہ دولت کمائی لیکن بدقسمت شخص دنیا میں بھی عیش نہ کرسکا۔ نسخہ عام کرکے شاید اگلا جہان ہی سنوار لیتا۔ افسوس صد افسوس۔۔۔!
قارئین! اگر کسی کے پاس آج بھی یہ نسخہ ہو تو وہ ضرور ماہنامہ عبقری کو بھیج کر لاکھوں لوگوں کی دعائیں لیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں